Monday, December 1, 2025
HomeUrdu StoriesUrdu Story Tasalli by Muheet Ismail - اردو کہانی تسلی از محیط...

Urdu Story Tasalli by Muheet Ismail – اردو کہانی تسلی از محیط اسماعیل

 

Urdu Story Tasalli by Muheet Ismail

اردو کہانی تسلی از محیط اسماعیل

Click Here To Read In English

اردو کہانی: تسلی

برسات یوں تو رحمت ہی رحمت ہوتی ہے، لیکن اہلِ لاہور کے لیے کبھی کبھی زحمت بھی بن جاتی ہے۔ جولائی کے آخری ہفتے کی شام کے آخری لمحوں میں جب میں لوئر مال کے کچہری اسٹاپ پر ویگن سے اترا تو ایک لڑکا میرے قریب آیا اور پوچھنے لگا:

”لاری اڈا یہاں سے کتنی دور ہے؟“

میں نے بتایا: ”بہت فاصلہ ہے، ویگن سے جاؤ۔“

جواب میں اس نے کہا: ”میرے پاس کرایہ نہیں ہے، پیدل ہی جانا پڑے گا۔“

مجھے اس سے ہمدردی سی ہوئی تو مزید معلوم کیا: ”لاری اڈے جا کر کیا کرو گے؟ کہاں سے آئے ہو اور کہاں جانا ہے؟“

عمر اس کی بمشکل تیرہ سال ہو گی۔ چہرے سے وہ کسی کم آمدنی والے گھر کا صاف ستھرا بچہ معلوم ہوتا تھا۔ گندمی رنگ، نہ زیادہ صحت مند نہ کمزور، اور قد تقریباً چار فٹ۔ ہم فٹ پاتھ پر ایک طرف کھڑے تھے۔ اس نے بتایا:

”ہم تین لڑکے صبح راولپنڈی سے لاہور گھومنے آئے تھے۔ تھوڑی بہت سیر کی۔ چوبرجی سے ہوائی جہاز دیکھنے کے بعد طے ہوا کہ داتا دربار چلیں گے۔ بس میں بہت بھیڑ کے باوجود ہم گھس گئے۔ دو ساتھی پچھلے دروازے سے سوار ہوئے اور میں اگلے سے۔ ٹکٹ لینا میرے دوست کے ذمے تھا کیونکہ میرے سو روپے اسی کے پاس تھے۔ دربار سے پہلے موڑ پر بس رکی۔ کنڈکٹر نیچے اتر کر آواز دے رہا تھا: ’دربار جانے والے آجاؤ بھئی!‘ میں اتر کر ساتھیوں کو ڈھونڈنے لگا مگر نظر نہ آئے۔ کنڈکٹر سے پوچھا تو پتا چلا کہ دونوں پچھلے اسٹاپ پر اتر گئے تھے۔ بس چل پڑی تو میں نے سوچا غلطی سے نہ اتر پڑے ہوں، شاید میرا انتظار کرتے ہوں! پچھلے اسٹاپ تک پیدل پہنچا مگر وہ نہ ملے۔ اب سوچ رہا ہوں لاری اڈے چل کر دیکھوں! وہاں بھی نہ ملے تو کسی کوچ یا بس والے کو صورتِ حال بتا کر بغیر ٹکٹ راولپنڈی جا پہنچوں گا۔“

بات واقعی پریشانی کی تھی۔ میری جگہ کوئی بھی ہوتا تو یہی کرتا جو میں نے کیا۔ میں نے اس سے پوچھا:

”نام کیا ہے؟“
”وقاص“۔
”والد کا نام؟“
”قاضی عبدالرشید، ریلوے ورکشاپ میں انسپکٹر ہیں۔ گھر ورکشاپ کے سامنے کوارٹرز میں ہے۔“
”کس جماعت میں پڑھتے ہو؟“
”نویں۔“
”سکول کا نام؟“
”شالامار اکیڈمی۔“
”گھر کا فون نمبر ہے؟“
”نہیں۔“
”کسی رشتہ دار کا نمبر؟“
”ماموں کا ہے۔“

اس نے رک رک کر بتایا، میں نے لکھ لیا اور جیب میں رکھ لیا۔

میں نے کہا: ”سب سے پہلے کھانا کھاتے ہیں پھر تمہیں ریل میں بٹھا دوں گا۔“
اس نے جواب دیا: ”بھوک نہیں ہے، شام ہی کو روٹی کھائی تھی۔“

پھر ہم دونوں چنگ چی میں بیٹھ کر ریلوے اسٹیشن پہنچے۔ راستے میں میں نے اس کے بہن بھائیوں کے بارے میں پوچھا اور تاکید کی کہ آئندہ کبھی والد یا کسی بڑے کے بغیر دوسرے شہر نہ جانا۔ زمانہ خراب ہے۔ لیکن وہ میری باتوں پر زیادہ توجہ نہیں دے رہا تھا۔

ریل کے بارے میں معلوم کیا تو پتہ چلا کہ خیبر میل کراچی سے آئی کھڑی ہے اور پانچ گھنٹے بعد راولپنڈی پہنچے گی۔ اس وقت رات کے نو بجے تھے۔ میں نے کہا:

”دیکھو، یہ ریل تو راولپنڈی دو بجے پہنچائے گی۔ اندھیرا ہو گا، گھر کے لیے کوئی سواری بھی شاید نہ ملے۔ ایسا کرو! آج میرے ساتھ رہ لو، صبح لاری اڈے سے بٹھا دوں گا تو دن میں گھر پہنچ جاؤ گے۔ ابھی ہم تمہارے ماموں کو اطلاع بھی دے دیتے ہیں۔“

وہ بولا: ”نہیں، نہیں۔ راولپنڈی میں ساری رات سواری مل جاتی ہے۔ میں اسی ریل میں جانا چاہتا ہوں۔“

میں نے ٹکٹ خریدا اور کچھ روپے دیے تاکہ وہ گھر رکشے سے جا سکے۔ مزید روپے راستے کے کھانے پینے کے لیے تھمائے۔ وہ قریب کی دکان سے نمکو وغیرہ لے آیا۔

ریل روانہ ہونے لگی۔ میں نے کہا: ”اگر تمہیں ڈر ہے کہ والد صاحب ڈانٹیں گے تو میں خود چل کر سمجھا دوں گا۔ وہ تمہیں کچھ نہیں کہیں گے۔“
وہ بولا: ”نہیں، میں اجازت لے کر ہی آیا تھا۔ مجھے گھر والے کچھ نہیں کہیں گے۔“

میں مطمئن ہو گیا۔ سگنل ہوتے ہی ریل نے کوک دی۔ میں نے وقاص سے ہاتھ ملایا اور کہا: ”اللہ حافظ۔“

لیکن وہ ایسے کسی جذبے کے بغیر مجھے دیکھ رہا تھا۔ اس کے چہرے پر نہ شکریہ تھا نہ الوداعی تاثر۔

ریل آنکھوں سے اوجھل ہوئی تو میں نے اس کے ماموں کو فون کیا اور مختصر صورتِ حال بتائی۔ جواب ملا:

”معاف کیجیے، ہمارے رشتہ داروں میں کسی کا نام وقاص نہیں، نہ ہی قاضی عبدالرشید ہمارے کچھ لگتے ہیں۔ آپ کو نمبر غلط دیا گیا ہے۔“

یہ سن کر میری پریشانی بڑھ گئی۔ مجھے چاہیے تھا کہ ٹکٹ دلانے سے پہلے ہی نمبر پر تسلی کر لیتا۔ اگلے دن میں نے ریلوے ورکشاپ کے پتے پر خط لکھ بھیجا کہ اگر لڑکا پہنچ گیا ہو تو اطلاع دیں۔ ایک ہفتہ گزرا، کوئی جواب نہ آیا۔

یہ واقعہ میں نے دوست حامد کو سنایا تو اس نے کہا:

”ایسے واقعات عام ہیں۔ وہ لڑکا ہمدردی کا مستحق نہیں تھا بلکہ اس نے تمہیں بے وقوف بنا دیا۔ وہ اگلے اسٹیشن پر اتر گیا ہو گا اور وہاں لوگوں کو دکھا دیا ہوگا کہ ’میرا سامان ریل میں رہ گیا ہے۔‘ لوگ ہمدردی میں پیسے جمع کر کے دے دیتے ہیں، سواری بھی مل جاتی ہے۔ یہ بھی ایک ناجائز طریقہ ہے آمدنی حاصل کرنے کا۔“

اب میری پریشانی حیرانی میں بدل گئی۔ میں نے دل کو تسلی دی کہ اللہ کرے، وہ بچہ واقعی اپنے گھر پہنچ گیا ہو۔

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

Advertisingspot_img

Popular posts

My favorites

I'm social

0FansLike
0FollowersFollow
0FollowersFollow
0SubscribersSubscribe