Oui Oui Aye Aye Urdu Funny Story
اوئی اوئی آئے آئے – اردو فنی کہانی
Click here to read in English!

اوئی اوئی آئے آئے، میں مر گیا!“ ٹونی چلایا۔
”تو بول کیسے رہے ہو؟ مردے بھی کبھی بولتے ہیں!“ مونی ہنسا۔
”میرے خیال میں یہ ابھی اچھی طرح سے نہیں مرا اس لیے بول رہا ہے۔“ گونی نے لقمہ دیا۔
ڈاکٹر جھکڑ نے عینک اتار کر میز پر رکھی اور بولا:
”دیکھو بات سنو! تم تینوں میں سے کبھی کوئی بیمار ہو جاتا ہے، کبھی کوئی۔ تمہیں ہمیشہ پیٹ کی بیماریاں لاحق رہتی ہیں۔ میں تمہیں لاکھ بار سمجھا چکا ہوں۔“
”جھوٹ تھوڑا بولیں ڈاکٹر صاحب! آپ صرف بارہ ہزار پانچ سو تراسی دفعہ سمجھا چکے ہیں۔“ مونی نے بات کاٹ کر کہا۔
”خاموش!“ ڈاکٹر جھکڑ گرجا۔ ”میں تمہیں سوالاکھ دفعہ سمجھا چکا ہوں کہ پینے کا پانی صاف استعمال کرو۔ آلودہ پانی پیتے ہو اور پیٹ پکڑے پھرتے ہو۔“
”ڈاکٹر صاحب! ہم نے پانی میں کبھی آلو ڈال کر نہیں پیا، پھر آلودہ کیسے ہو گیا؟“ گونی نے حیرت سے پوچھا۔
”میرے خیال میں آلودہ شاید فالودہ کا چھوٹا بھائی ہے۔ یاد آیا، ہمیں فالودہ کھائے ہوئے تین سال اور پونے چار مہینے ہو گئے ہیں۔ آج شام کو صدر چوک سے کھا کر نہ آئیں؟“ مونی نے کہا۔
ادھر ٹونی کی آنکھیں بند ہوئی جا رہی تھیں۔ اسے تیز بخار تھا۔ ڈاکٹر جھکڑ نے بلند آواز میں کہا:
”بدتمیز لوگو! میں ٹونی کو انجکشن لگا رہا ہوں اور چند دوائیں لکھ کر دے رہا ہوں۔ یہ اسے مسلسل کھلاؤ۔ لیکن میں شام کو ٹونی کے گھر آؤں گا اور دیکھوں گا کہ یہ کس قسم کا پانی پیتا ہے۔“
”ہوں! یہ بات ہے…“ ڈاکٹر نے کہا اور ٹونی کے مکان کے باہر لگے ہینڈ پمپ کو غور سے دیکھا۔
”کیا بات ہے جناب جھکڑ صاحب؟“ ٹونی کراہتے ہوئے بولا۔
”میں بتاتا ہوں۔“ ڈاکٹر جھکڑ نے ہینڈ پمپ چلایا اور اس میں سے گھونٹ بھر کر کہا: ”بالکل میرا اندازہ درست تھا، اس نلکے کا پانی آلودہ ہے۔“
”مگر کیسے؟“ مونی نے حیرت سے کہا۔
ڈاکٹر جھکڑ نے وضاحت کی:
”دیکھو، اس کے بالکل قریب کتنا بڑا چھپڑ ہے گندے پانی کا۔ یہ پانی زمین میں جذب ہوتا رہا ہے اور اس کا کچھ نہ کچھ حصہ صاف پانی میں شامل ہو کر نلکے سے آرہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نلکے کا پانی کھارا اور آلودہ ہے۔“
”پھر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اس نلکے سے تو سارے محلے کے لوگ پانی پیتے ہیں۔“ گونی بولا۔
ڈاکٹر نے کہا:
”یہ نلکا یہاں سے اکھڑوا کر چھپڑ سے دور لگواؤ۔ تب تک اس کا پانی ابال کر اور ٹھنڈا کر کے پینے کے لیے استعمال کرو۔“
”بالکل درست! ہم آج ہی دتے لوہار سے رابطہ کرتے ہیں۔“ مونی اور گونی ایک ساتھ بولے۔
نلکا دوسری جگہ لگانے کے بعد ٹونی تو ٹھیک ہو گیا، مگر اب مونی بیمار ہو گیا۔ وہ اسے ڈاکٹر جھکڑ کے پاس لے آئے۔
”اوئی اوئی آئے آئے، میرا پیٹ گیا!“ مونی چیخا۔
”کہاں گیا؟ یہ ہے تو۔“ گونی نے اس کے پیٹ پر ہاتھ پھیرا۔
”ہے ہے… کت کتاریاں نہ کرو یار۔“ مونی روتے روتے ہنس دیا۔
”یہ تم تینوں سراسر احمق ہو!“ ڈاکٹر جھکڑ نے کہا۔
ٹونی مسکرایا اور بولا:
”نہیں نہیں، ہم بالکل بھی احمق نہیں ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے کچھ پاگل لوگ ہمیں احمق سمجھتے ہیں۔“
ڈاکٹر جھکڑ نے ڈانٹ کر کہا:
”خبردار! میرا نام ڈاکٹر جھکڑ ہے۔ سچ سچ بتاؤ اب اس نے کیا کھایا پیا؟“
”اس نے بوٹے کے پھٹہ ہوٹل سے چائے پی تھی۔“ ٹونی نے بتایا۔
”اس نے برتن گندے پانی میں ڈبو رکھے ہوں گے؟“ ڈاکٹر نے پوچھا۔
”آہو۔“ ٹونی بولا۔
”یہ آہو کیا ہوتا ہے؟ ہاں جی کہو!“ ڈاکٹر نے ڈانٹا۔
”اچھا جی ہاں جی۔“ ٹونی نے ہونقوں کی طرح کہا۔
ڈاکٹر جھکڑ بولا:
”آلودہ پانی سے دھلے برتنوں میں اس نے چائے پی لی اور اب پیچش اور الٹیوں میں مبتلا ہے۔ تم بندے کے پتر کیوں نہیں بنتے؟ برتن صاف پانی میں دھلے ہونے چاہییں بلکہ ہوٹلوں کے برتن تو گرم پانی میں دھلنے چاہییں۔ اب لمبے لیٹو اور ڈرپ لگواؤ، ورنہ پانی کی کمی سے مر جاؤ گے۔“
مونی کراہتے ہوئے بولا:
”اوئی اوئی آئے آئے… اک تو یہ آلودہ پانی ہاتھ دھو کر ہمارے پیچھے پڑ گیا ہے۔“
ٹونی نے فلسفہ جھاڑتے ہوئے کہا:
”بے وقوف! اگر پانی ہاتھ دھو لیتا تو آلودہ کیسے رہ جاتا؟“
”ڈاکٹر صاحب! اس ڈرپ میں تو پانی آلودہ نہیں ہے نا؟“ گونی پاگلوں کی طرح بولا۔
”خاموش جاہلوا! چلو مونی کو لٹاؤ۔“ ڈاکٹر دھاڑا۔ ☆☆☆
ٹونی اور مونی ٹھیک ہوئے تو گونی بیمار پڑ گیا۔ اسے رکشے میں ڈال کر ڈاکٹر جھکڑ کے پاس لایا گیا۔
”اوئی اوئی آئے آئے، میرے پیٹ میں سخت گڑبڑ ہے!“ گونی چلایا۔
”اب تم نے کیا بدپرہیزی کر ڈالی؟“ ڈاکٹر جھکڑ نے غصے سے پوچھا۔
ٹونی نے زور سے کہا:
”ڈاکٹر صاحب! اس نے سبزی کی دکان سے اٹھا اٹھا کر بہت سی گاجریں کھائی تھیں۔“
مونی نے تیز آواز میں کہا:
”ڈاکٹر جھکڑ! آپ نے سنا نہیں؟ جہناں کھا دیاں گاجراں، ڈھڈ اونہاں دے پیڑ!“
ڈاکٹر جھکڑ بولا:
”براہ کرم خاموشی اختیار کرو۔ میں سمجھ گیا، گونی واقعی گاجریں کھانے سے بیمار ہوا ہے۔“
گونی نے کہا:
”لیکن ڈاکٹر جھکڑ! آپ ہی تو کہا کرتے ہیں کہ کچی سبزیاں کھانا صحت کے لیے مفید ہے؟“
ڈاکٹر جھکڑ نے تفصیل سے بتایا:
”ہاں! لیکن کھیتوں میں سبزیوں کو دیا جانے والا پانی صاف نہیں ہوتا۔ ٹیوب ویلوں کا پانی بھی نالیوں اور کھالیوں سے گزرتے ہوئے آلودہ ہو جاتا ہے۔ چھوٹی نہروں اور نالوں کے پانی میں تو انسانی اور حیوانی فضلے بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ پانی فصلوں کے لیے کھاد کا کام کرتا ہے، لیکن جو سبزیاں زمین کھود کر نکالی جاتی ہیں انہیں صاف پانی سے اچھی طرح دھو کر کھانا چاہیے ورنہ ان پر آلودگی کے اثرات ضرور ہوں گے۔“
گونی نے جلدی سے کہا:
”لیکن مونی نے بھی تو تین چار شلجم کھائے تھے دھوئے بغیر، اسے تو کچھ نہیں ہوا۔“
مونی ہنسا:
”میں نے چھری سے شلجم کا چھلکا اتار دیا تھا، اس لیے آلودہ پانی کے جراثیم میرے جسم میں نہیں گئے۔“
ڈاکٹر جھکڑ نے کہا:
”سبزیوں والے اگر سبزیاں دھوتے بھی ہیں تو ایک ہی ٹب میں ڈال کر دگڑ مگڑ کر دیتے ہیں۔ سبزیوں کو دوبارہ صاف پانی سے دھونا ضروری ہے۔“
اسی دوران ٹونی زور سے ہنسا:
”ڈاکٹر جھکڑ صاحب! آپ کو پتا ہے ہم لوگ ہر لکھے ہوئے اصول کے خلاف عمل کرتے ہیں۔ جس دیوار پر لکھا ہوتا ہے ’تھوکنا منع ہے‘، وہاں سب تھوکتے ہیں۔ جس پر لکھا ہوتا ہے ’کتا منع ہے‘، اس کے نیچے کتے پیشاب کرتے ہیں۔ ہاہاہا!“
ڈاکٹر جھکڑ نے غصے سے کہا:
”اچھا اچھا! مرو پرے لٹاؤ گونی کو تاکہ اسے چیک کروں۔“
ٹونی بولا:
”ڈاکٹر صاحب! سب سے پہلے میں بیمار ہوا، پھر مونی، پھر گونی۔ آپ کو پتا ہے نا… پہلا بادشاہ، دوجا وزیر، تیجا چوہڑیاں دا پیر!“
”ٹھہرو! میں تمہیں بتاتا ہوں۔“ گونی نے اسے لات رسید کی۔ ☆☆☆
”اوئی اوئی آئے آئے!“ ڈاکٹر جھکڑ چلایا اور دروازہ کھول کر صحن میں آ بیٹھا۔
ٹونی، مونی اور گونی لپک کر آئے:
”ارے ڈاکٹر صاحب! آپ کو کیا ہوا؟ کیا آپ نے آلودہ پانی والی کوئی چیز استعمال تو نہیں کر لی؟“
ڈاکٹر جھکڑ بولا:
”کہاں ہو تم تینوں؟ آج کل کوئی بھی میری دکان پر نہیں آتا۔“
مونی نے کہا:
”ہم تینوں ٹھیک ہیں۔ ہم اب صاف پانی پی رہے ہیں۔ نلکا صاف جگہ پر لگوا لیا ہے۔ برتن ہم صاف پانی سے دھوتے ہیں اور سبزیاں بھی اچھی طرح دھو کر کھاتے ہیں۔ لیکن آپ کیوں اوئی اوئی آئے آئے کرتے ہوئے چلے آئے؟“
ڈاکٹر جھکڑ منہ بسور کر بولا:
”میں روؤں نہ تو اور کیا کروں؟ میرے کلینک میں اب کوئی مریض نہیں آتا۔ سارے مریض صاف پانی پی پی کر تندرست ہو گئے ہیں۔ ہائے میں مرا!“
ٹونی نے کہا:
”مونی! بھاگ کر پانی کا گلاس لا ڈاکٹر صاحب کے لیے۔“
مونی بھاگ کر گھڑے سے گلاس بھر لایا اور ڈاکٹر کو دیا۔ ڈاکٹر نے پانی پیا، اٹھ کھڑا ہوا اور بولا:
”صاف پانی ہی زندگی ہے!“


